Skip to main content

کاروکاری یا شک کی بناء پر جھوٹے الزامات اور مخالفین پر مقدمات اور اس کے حقائق ۔۔۔۔۔۔

تحریر و تحقیق : الیاس گبول


جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع راجن پور میں کاروکاری یا شک کی بنیاد پر قتل کردینا عام کی بات ہے آئے روز اس طرح کے واقعات معمول بن چکے ہیں جس کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے یا انسانی حقوق کی تنظیمیں خاطر خواہ اقدامات نہ کرسکے جس کی بنیادی وجہ اس پر جامع قانون سازی اور قوانین پر کا فقدان ہے جس سے ملزمان کو اس کا فائدہ مل جاتا ہے اور وہ  قتل جیسے سنگین مقدمات سے بری ہو جاتے ہیں کیونکہ غلط انفارمیشن ، جھوٹی خبروں یا بے بنیاد الزامات کی صورت میں بیوی یا بہن کو قتل کرنے  والے ملزمان کا مدعی بھائی ، والد یا والدہ بن جاتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد اسے معاف کردیا جاتا ہے جس سے ملزم کسی سزا کے بری ہو جاتا ہے ۔ دوسری جانب پولیس کے مطابق ضلع راجن پور میں 2021 کے دوران کاروکاری اور شک کی بناء پر  302/311/34/109/201 کی دفعات کے تناظر میں 11 مقدمات درج کیے گئے جو انڈر ٹرائل ہیں ۔ پسماندہ ترین ضلع راجن پور میں خاندانی دشمنیوں کا سلسلہ کئی دہائیوں تک چلتا ہے اور مخالفین کو ہمہ قسم کا نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی چاہے وہ الزام  کاروکاری یا شک کی بناء پر جھوٹا الزام  کیوں نہ ہو مخالف پر لگا کر اپنے کی لڑکی یا خاتون کو قتل کرکے کاروکاری کا الزام لگا دیا جاتا ہے جس سے مخالف کے پنچایت بلائی جاتی ہے اور اس پر مخالفین کے بچیوں کا ونی اور لاکھوں روپے چٹی رکھی جاتی ہے اور پنچایت کے اس غیر قانونی فیصلے کو چاہتے یا نہ چاہتے ہو ماننا پڑتا مجبوراً اس والد یا رشتہ دار اپنی بچیاں بطور ونی دینا پڑتی ہیں جو ساری زندگی لوٹ کر  اپنے والدین کے گھر نہیں آسکتیں اور نہ ہی اپنے والدین ، بہن بھائی اور رشتہ داروں سے مل سکتی ہیں ۔ 

 

۔ ممبر ہیومن رائٹس میڈم شہناز اکبر کے مطابق خواتین کے حقوق سمیت اس طرح کیسسز کے لیے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے جس کے لیے اس طرح کیسسز میں تبدیلی کے لیےکوشش کی جارہی ہے جس سے نہ صرف متاثرین کو فائدہ ملے گا اور ملزمان کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزا مل سکے گی اور متاثرین کو انصاف ۔ دوسری جانب عمر کوٹ کے متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ میری بیٹی اور داماد کو اس کے بھائیوں نے قتل کردیا تھا اور مقدمہ مدعی ہماری بجائے مقتول اور ملزمان کے والدین بن گئے تھے جس سے نہ صرف کیس کمزور ہوا بلکہ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو معاف کردیا تھا جس سے ملزمان سزا سے بچ گئے تھے اور ہمیں انصاف نہیں مل سکا ۔ اس موقع پر تجزیہ نگار کے مطابق اس قانون میں ابھی تک تبدیلی اور بہتری کی اشد ضرورت ہے تاکہ ملزمان کسی پر جھوٹی اور بے بنیاد ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن افواہیں اور خبریں پھیلا کر اس سے ناجائز اٹھاتے ہیں وہ نہ اٹھا سکیں اس طرح کے جرم میں ملوث ملزمان کو قانون کے مطابق سزا ملے اور متاثرہ خاندان کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے گا ۔  

 

الیاس گبول ( انوسٹیگیٹو جرنلسٹ ) راجن پور 

Comments

Popular posts from this blog

Choto Gang Ke Hathoon Ahlkaron Ki Baziabi

  Anchor Arshad Sharif was killed in Kenya            writing by. ILyas Gabol Anchor Arshad Sharif was murdered in Kenya. He is survived by his wife and two teenage daughters. His death has left Pakistan with a serious media vacuum, as he was seen as a symbol of the country’s liberal and progressive traditions at a time when such values are under pressure from an increasing presence of Islamic conservatism. The murder also reflects the fragile nature of journalism in East Africa where journalists are often targeted particularly in conflict zones like Somalia and Rwanda, with little or no protection offered to them by their governments. Mr. Sharif was based at the nation’s newest, but now highly controversial private TV station, Express 24/7. Mr. Sharif came to Kenya two years ago to work for the Government-owned Kenya Broadcasting Corporation, where he was part of a team of broadcast journalists and producers brought in by the country’s Salaries and Re...