Skip to main content

 سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات اور اس کے نقصانات۔۔۔

تحریر و تحقیق: الیاس گبول

زیادہ تر غلط اور گمراہ گن معلومات کا آغاز سوشل میڈیا سے ہوتا ہے اس کا نقصان اس وقت بہت زیادہ ہوتا ہے جب بغیر کسی تحقیق اور تصدیق کے غیر مصدقہ نیوز اور پوسٹ کو شیئر کردیا جاتا ہے اور باز اوقات اسے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں شائع کردیا جاتا ہے جس سے تصویر کا غلط رخ پیش ہونے سے نقصانات کے امکانات کئی گناہ بڑھ جاتے ہیں باز اوقات بھی ہوتا ہے خبر کو سوشل میڈیا پر ڈال کر عوام کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش بھی جاتی ہے جس پر حکومت کی جانب سے ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کی روک تھام کے لیے پیکا ایکٹ 2006 میں امینڈمنٹ کرکے صدارتی آرڈینس کے تحت امپلیمنٹ کردیا گیا ۔ دوسری  جانب اس قانون کے تحت گرفتاریوں کا عمل بھی شروع کردیا گیا جس کے تحت راجن پور میں ایف آئی اے ملتان نے راجن پور کے علاقے فاضل پور سے نازیبا پوسٹ اور غلط انفارمیشن پھیلانے پر ایک شخص کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا ایک اور کاروائی کے دوران ایف آئی اے ملتان نے چند روز اسی قانون کے تحت مقدمہ نمبر 39/22 اور 40/22 درج کرکے قاضی قدیر نامی شخص کو گرفتار کرکے ملتان منتقل کردیا ۔  تجزیہ نگار سے ہماری ہوئی تو اس کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا غلط اور جھوٹی خبریں (ڈس انفارمیشن /مس انفارمیشن) کا بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے جس پر بر وقت کنٹرول نہ کیا گیا تو اس سے بھی مزید نقصانات میں اضافہ ہوسکتا ہے پیکا ایکٹ کے تحت ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کی روک تھام میں مدد ملے گی ۔دوسری جانب شہری ملک طارق کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا وہ آسان پلیٹ فارم بن چکا ہے جس پر آپ کسی شریف شہری، حکومتی عہدیدار، سیاست دانوں سمیت کسی کی بھی پگڑی با آسانی اتار کر اس کی عزت نفس مجروح کرسکتے ہیں یہ کام صرف صرف سائبر کرائم ونگ کا ہے جو کہ سوشل میڈیا، فراڈ اور جعلسازی کے لیے بنایا گیا قانون نافظ کرنے والے اداروں کو اپنی کاروائیوں میں مزید تیزی لانا ہوگی جس سے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جاسکتی ہے دوسری جانب قانون نافظ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے غلط انفارمیشن، تشدد کی وائرل ویڈیوز، خواتین کی ہراسمنٹ سمیت اہم پوسٹس پر نظر رکھی ہوئی ہے اور قانون کے مطابق ان پر کاروائیاں بھی جاری ہیںباور مزید اس پر کام بھی جاری ہے جلد ہی اس پر مکمل روک تھام کرلی  جائیگی ۔

 دوسری جانب اس الیکٹرانک کرائم  ترمیمی بل 2022 پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔1: کسی کی پرائیویسی یا ساکھ کو نقصان پہنچانے کی سزا ۔۔ جو کوئی کسی کی پرائیویسی یا ساکھ کو نقصان پہنچائے گا اسے 3 سال قید کی بجائے اسے 5 سال کی سزا دی جائے گی مزید یہ کہ یہ جرم ناقابل ضمانت جرم ہوگا ۔ 2: شکایت درج کرانے کا اختیار ۔۔۔نئی ترمیم کے تحت شکایت درج کرانے کا اختیار متاثرہ شخص یا ادارے کے نمائندے کو بھی ہوگا ۔ 3: ٹرائل کورٹ کا کیس جلد نمٹانا لازمی قرار ۔۔۔ٹرائل کورٹ نے جلد کیس نہ نمٹایا تو حکومت ہائی کورٹ کو سفارش کرسکے گی ۔ 4: ٹرائل کورٹ کی ماہانا کارکردگی کی رپورٹ ۔۔۔ ٹرائل کورٹ کو ان ترامیم کے مطابق متعلقہ ہائی کورٹ کو ماہانہ کارکردگی کی رپورٹ بھجوانا ہوگی۔ 5: کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں مدد کرنے کی سزا ۔۔۔۔کس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں مدد کرنا بھی ان ترامیم کے تحت ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے اور ٹرائل کورٹ کو چھ ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کا پابند بنا دیا گیا ہے ۔ دوسری جانب میڈیا تنظیموں نے ان ترامیم کو میڈیا پر قدغن قرار دیتے ہویے ماننے سے انکار کر دیا ہے اور ان حکومتی اقدامات کی شدید مخالف بھی کی ہے دوسری جانب سے سپریم کورٹ نے ان ترامیم اور سیکشن کے تحت حکومتی اداروں اور ایف آئی اے کو گرفتاریوں سے بھی روک دیا گیا ہے ۔

الیاس گبول ( انوسٹیگیٹوجرنلسٹ ) راجن پور 03327239955


Comments

Popular posts from this blog

Choto Gang Ke Hathoon Ahlkaron Ki Baziabi

کاروکاری یا شک کی بناء پر جھوٹے الزامات اور مخالفین پر مقدمات اور اس کے حقائق ۔۔۔۔۔۔ تحریر و تحقیق : الیاس گبول جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع راجن پور میں کاروکاری یا شک کی بنیاد پر قتل کردینا عام کی بات ہے آئے روز اس طرح کے واقعات معمول بن چکے ہیں جس کی روک تھام کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے یا انسانی حقوق کی تنظیمیں خاطر خواہ اقدامات نہ کرسکے جس کی بنیادی وجہ اس پر جامع قانون سازی اور قوانین پر کا فقدان ہے جس سے ملزمان کو اس کا فائدہ مل جاتا ہے اور وہ  قتل جیسے سنگین مقدمات سے بری ہو جاتے ہیں کیونکہ غلط انفارمیشن ، جھوٹی خبروں یا بے بنیاد الزامات کی صورت میں بیوی یا بہن کو قتل کرنے  والے ملزمان کا مدعی بھائی ، والد یا والدہ بن جاتے ہیں اور کچھ عرصہ بعد اسے معاف کردیا جاتا ہے جس سے ملزم کسی سزا کے بری ہو جاتا ہے ۔ دوسری جانب پولیس کے مطابق ضلع راجن پور میں 2021 کے دوران کاروکاری اور شک کی بناء پر  302/311/34/109/201 کی دفعات کے تناظر میں 11 مقدمات درج کیے گئے جو انڈر ٹرائل ہیں ۔ پسماندہ ترین ضلع راجن پور میں خاندانی دشمنیوں کا سلسلہ کئی دہائیوں تک چلتا ہے اور مخالفی...
  Anchor Arshad Sharif was killed in Kenya            writing by. ILyas Gabol Anchor Arshad Sharif was murdered in Kenya. He is survived by his wife and two teenage daughters. His death has left Pakistan with a serious media vacuum, as he was seen as a symbol of the country’s liberal and progressive traditions at a time when such values are under pressure from an increasing presence of Islamic conservatism. The murder also reflects the fragile nature of journalism in East Africa where journalists are often targeted particularly in conflict zones like Somalia and Rwanda, with little or no protection offered to them by their governments. Mr. Sharif was based at the nation’s newest, but now highly controversial private TV station, Express 24/7. Mr. Sharif came to Kenya two years ago to work for the Government-owned Kenya Broadcasting Corporation, where he was part of a team of broadcast journalists and producers brought in by the country’s Salaries and Re...